پاکستان میں اب سیکنڈ ہینڈ گاڑی لینا بھی
آسان نہ رہا ۔۔۔ گاڑیوں کے شوقین افراد کے لیے بری خبر |AA
NEWS NETWORK | #AANEWSNETWORK
استعمال شدہ کاروں پر درآمدی ڈیوٹیز بڑھنےسے
کاروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیاہے جس کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی سے کار
ڈیلرز پریشانی کا شکار ہیں۔حکومت کی جانب سے غیر ملکی کاروں کی درآمد پر ڈیوٹیز میں
اضافے کے بعد سے خریدار استعمال شدہ کاروں کی قیمتیں سن کر ہی پریشان ہیں۔خریداروں
کا کہنا ہےکہ جو
6 ماہ پہلےگاڑی کا ریٹ تھا اب اس سے بڑھ
گیا ہے، گاڑی کی قیمت میں 2 سے 3 لاکھ روپے اضافہ ہوا ہے۔استعمال شدہ درآمدی کاروں
کے شورومز پر کبھی خریداروں کا رش رہتا تھا لیکن اب ویرانی کے ڈیرے ہیں جب کہ شو رومز
مالکان کا کہنا ہے کہ وہ صبح سے شام تک فارغ بیٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں، حالات بہت خراب
ہو گئے ہیں، دن بہ دن قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے کام نہ ہونے کے برابر ہے۔استمال شدہ درآمدی
کاروں کی خریداری کے خواہش مند افراد اور ان کی فروخت سے منسلک شوروم مالکان کا حکومت
سے مطالبہ ہے کہ درآمدی ڈیوٹیز میں کمی لاکر شہریوں کو کم قیمت میں معیاری گاڑیاں
خریدنے کے موقع فراہم کیا جائے۔ صرف اس سال پاکستان میں کاریں بنانے والی کمپنیوں نے
پاکستان میں بکنے والی تمام گاڑیوں کی قیمتوں میں کم از کم ایک بار اضافہ کیا ہے۔ چند
ہفتے قبل ہی پاک سوزوکی موٹر کمپنی نے اپنی گاڑیوں کی قیمت میں مزید اضافہ کیا۔اس کے
ساتھ ہی پاک سوزوکی نے کئی دہائیوں سے پاکستان میں بکنے والی اپنی مہران کار کی جگہ
سوزوکی آلٹو کو متعارف کروانے کا اعلان کیا جس کے ایک ماڈل کی قیمت 1250000 ہو گی۔اس
کار کی قیمت پر
نیچے لنک پر کلک کریں اور مشہور خبریں پڑھیں اور ابھی جیتیں 10 ڈالر ۔یہ آفر محدود مدت کے لیے ہے۔جلدی نیچے زیاوہ سے زیادہ خبروں کو کھولیں۔
پاکستانی آن لائن کیمیونٹی نے ہنگامہ کھڑا
کیا اور یہ بحث ایک بار پھر شروع ہوئی کہ آخر پاکستان میں گاڑیاں اتنی مہنگی کیوں ہیں؟
اس ساری صورتحال سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں 1300 سی سی سے نیچے گاڑی میں
ورائٹی اوپر کی کیٹیگری میں صرف تین گاڑیاں ہیں جن میں سے دو ٹویوٹا کی اور ایک نووارد
چینی کمپنی فا کی گاڑی ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ 1300 تک کی گاڑی کی مارکیٹ میں مسابقت
نہ ہونے کے برابر ہے اور ورائٹی جس حد تک موجود ہے وہ دو کمپنیوں کی جانب سے ہی پیش
کی جاتی ہے۔ مطلب ان کمپنیوں کی اس مارکیٹ میں اجارہ داری ہے۔ سب سے پہلے تو اہم بات
یہ ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والی کوئی بھی گاڑی مکمل طور پر مقامی طور پر تیار
نہیں ہوتی بلکہ اس کے بہت سے پرزے بیرونِ ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ ایک گاڑی کی قیمت
اس بات کا بہت عمل دخل ہے کہ وہ کتنی حد تک مقامی طور پر تیار کی گئی ہے۔گاڑیوں کی
طلب اور رسد کا نظام پہلے ہی متوازن نہیں اس پر کار ڈیلر گاڑیوں کی فروخت پر ’پریمیم‘
کے پیسے جسے عام زبان میں ’آن منی‘ کہا جاتا ہے اس کی طلب بھی کرتے ہیں۔ یہ رقم گاڑی
کی اصل قیمت کہ
نیچے لنک پر کلک کریں اور مشہور خبریں پڑھیں اور ابھی جیتیں 10 ڈالر ۔یہ آفر محدود مدت کے لیے ہے۔جلدی نیچے زیاوہ سے زیادہ خبروں کو کھولیں۔
علاوہ ڈیلر طلب کرتا ہے تاکہ گاڑی معینہ
مدت سے پہلے یا اسی وقت خریدار کو دی جا سکے۔ اس لین دین کی کوئی رسید نہیں ہوتی اس
لیے کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اور کار ڈیلر ایک گاڑی کے پیچھے دس ہزار روپے سے لے کر
دس لاکھ روپے تک وصول کرسکتے ہیں۔ یہ سب گاڑی کی مارکیٹ میں طلب پر منحصر ہے۔
|
No comments