Breaking News

ہیجڑے کون ہوتے ہیں | AA NEWS NETWORK

AA NEWS NETWORK

ہیجڑے کون ہوتے ہیں










خواجہ سرا ، کھسرہ، یا پھر ہیجڑہ ایک ایسی جنس کو کہتے ہیں جو کہ نہ تو مرد ہوتی ہے اور نہ ہی عورت بلکہ ان کے درمیان کی ایک انسان جس کو جنسی معذوری لاحق ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرہ میں نظر آنے والے کھسرے ان میں درحقیقت اکثریت مردوں کی ہوتی ہے جو کہ شوقیاں یا ہھر پیسوں کی خاطر زنانہ لباس پہن کر معیوب کاموں میں ملوث ہوتے ہیں ۔ ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے یہ کھاتے پیتے کہاں سے ہیں ان کی خانگی زندگی میں کیا کچھ ہوتا ہے ان کا سارا سسٹم کیسے چلتا ہے اس سب کے بارے میں پڑھنے کے لئے یہ آرٹیکل پڑھے اور سوچئے کہ حقیقی کھسرہ اپنی زندگی کیسے گزارتا ہےجب میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ میں لڑکی نہیں ہوں ۔ یہ ادراک ہونے کے بعد میںایک کرب میں مبتلا ہو گئی ۔ میرے والدتو بچپن میں ہی فوت ہو چکے تھے اور والدہ نے دوسری شادی کر لی تھی ۔ میری بہنیں بھی تھیں لیکن مجھ میں ہمت نہیںتھی کہ میں یہ بات انھیں بتاں۔ کئی مرتبہ والدہ کو بتاتے کی کوشش کی لیکن انھیں اپنے دوسرے خاوند اور ان کے بچوںسے فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں میری یہ کیفیت رنگ لانے لگی اور میں کمر لچکا لچکا کر چلنے لگی تو میرے ایک سوتیلے بھا ئی نے مجھے کہا کہ یہ تم خسروں کی طرح کیوں مٹکتی ہوں۔اس رات مجھے نیند نہیںآئی اور ساری رات روتی رہی اور اللہ سے دعا کرتی رہی کہ اے پروردگار یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں اگر لڑکی نہیں تو میں لڑکا بھی نہیں ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ میرے ساتھ ہونا تھا جیسا کہ اور بہت سے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے ہمت کر کے اپنی والدہ کو سب کچھ بتا دیا جنہوں نے میرے سوتیلے باپ سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ عاشی کھسرا ہے اورکھسرے کا یہاں کیا کام۔ یہ بات جب میرے سوتیلے بھائیوں کو پتہ چلی تو وہ میرے خلاف ہو گئے اور مجھے مارتے اور گھر سے نکل جانے کو کہتے کہ تمہاری وجہ سے ہماری بدنامی ہوگی۔عاشی نے بتایا کہ انہدنوں ہمارے گھر ایک خسرہ آیا کرتا تھا اسے بھی یہ بات معلوم ہو گئی تو اس کی مجھ سے ہمدری بڑھ گئی اور آخر کار 20برس کی عمر میں میں گھر کو خیر باد کہہ کر اس خسرے کے پاس چلی آئی جو مجھے لیکر غلام حسین نامی







ایک گروکے پاس لے گیا جہاں پہلے بھی میری جیسے لڑکیاں اور لڑکے رہتے تھے۔ غلام حسین نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ قدرت نے جب تمہیں ایسا ہی بنایا ہے تو غم کیوں کرتی ہو۔ آہستہ آہستہ میںنے خود کو قبول کر لیا۔یہ کہانی لاہور کے علاقے گوالمنڈی کے رہائشی ایک کشمیری خاندان کی بیٹی کی ہے جو آج عاشی بٹ کے نام سے ہیرا منڈی کی ایک معروف شخصیت ہے۔45سالہ عاشی جب اپنے گھر سے باہر زرق برق لباس میں نکلتی ہے تو اس کے ساتھ 8/10افراد ہوتے ہیں اور علاقے کے لوگ بٹ صاحب کہہ کر اسے سلام کرتے ہیں۔ ہیرا منڈی میں کوئی خسرہ پکڑا جائے تو یہی اسے تھانے سے چھڑا کر لاتی ہے کوئی بیمار پڑ جائے تو عاشی ہی اس کی مسیحا بنتی ہے ، کوئی مر جائے تو یہی اس کا کفن دفن کرتی ہے۔ یتیم بچوں اور بچیوںکی پرورش کرنا اور ان کی شادیاں کرنا بھی عاشی نے اپنی ذمہ داری بنالیا ہے۔ اب عاشی “جائیں تو جائیں کہاں “نامی ایک تنظیم چلا رہی ہے جو خواجہ سراں کے مسائل کے حوالے سے کام کر تی ہے۔ اب عاشی نے ایک کنال اراضی خریدی ہے جس پر وہ مدرسہ بنوانا چاہتی ہے۔بنی نوع انسانوں میں مرد اور عورت کے علاوہ ایک اور بھی صنف ہے جو بظاہر تو مکمل انسان ہے مگر نہ تو مکمل مرد ہے نہ ہی عورت۔ اسے ہیجڑا ، کھسرا ، خسرہ اور خواجہ سرا اوریورپ میں لیڈی بوائے یا شی میل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کسی بھی والدین کے ہاں پیدا ہونے والے ایسے بچے بھی اصل میں گونگے، بہرے، اندھے اور معذور پیدا ہونے والے بچوں کی طرح خصوصی بچے ہوتے ہیںمگر کچھ والدین اپنے ان سپیشل بچوں کی عادات و خصائل دیکھ کر تنگ آ جاتے ہیں اور انسانی ہمدردی سے خالی ہو کر ایسے بچوں خاص طور پر لڑکوں کو خواجہ سراوں کے گرو کے حوالے کر دیتے ہیں۔جو ہیجڑے بن کر محفلوں میں ناچتے ہیں‘ گرو کے ہاتھوں ماریں کھاتے ہیں اور ان کے تحفظ میں جا کر اگر ان کی عصمت کو عصمت کہا جائے تو عصمت فروشی کا دھندہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ قابل رحم ہوتے ہیں‘ ان کے اندر بھی انسانی دل اور خواہش ہوتی ہے‘ ایک جنسی امتیاز کی وجہ سے ملزم و مجرم و گنہگار ٹھہرائے جاتے ہیں حالانکہ ان کی اس فطری حالت کے وہ خود ذمہ دار نہیں ہوتے ۔ناچ گانے کے دھندے کے علاوہ انہیں کچھ کرنا ہی نہیں آتا۔ گلی بازار میں آئیں تو ‘ فحش جملوں کی بوچھاڑ ان کا استقبال کرتی ہے‘ ان کو کم از کم انسان تو نہیں سمجھا جاتا۔ڈسٹرکٹ ہسپتال بہاولپور کے ڈاکٹر زبیر احمد جو پاکستان کے پہلے سرجن ہیں جو اب تک ایسے بیسیوں خصوصی بچوںکا آپریشن کر چکے ہیں،اس حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ خصوصی بچے بھی انسانوں کے ہی پیدا ہوتے ہیں لیکن ماں کے پیٹ میں ابتدائی پرورش کے دوران فطری طور پر کچھ ہارمون ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور عورت کے جسم میں مرد اور مرد کے جسم میں عورت حلول کر جاتی ہے۔یہ عام طور پر وہ بچے ہوتے ہیں جن کی جنس پیدائش کے وقت متعین نہیں کی جا سکتی۔ ذرا بڑے ہونے پر مختلف ہارمونل ٹیسٹ کی بنیاد پر ان کو قریبی مرد یا عورت کہا جاتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کا ہارمونل بیلنس کس طرف زیادہ ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ عام انسانوں کی طرح اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن بچپن میں ہی ان کے دو تین آپریشن اور ادویات سے ان کا ہارمونل بیلنس درست کیا جاسکتا ہے۔مگر چونکہ یہاں والدین اس طرح سوچتے ہی نہیں حالانکہ یہ بھی دیگر پیدائشی اندھے، گونگے اور بہرے بچوں جیسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے پیدائشی معذور بچوں کا اپنا کوئی قصور نہیں ہوتالہذا ان کی زندگی برباد نہیں ہونی چاہیے اور نہ ان پر زندگی کے دروازے بند کرنے چاہیئے لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں ابھی تک اس کا شعور نہیں ہے کہ، سب کو جینے کا حق ہے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر سدرا کاظمی کا کھسروں کی ذہنی استعداد کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان میں وہی خصوصیات اور استعداد ہوتی ہے جو عام نارمل بچوں میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ انھیں بچپن سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور انھیں وہ ماحول نہیں ملتا جو دوسرے بچوں کو ملتا ہے جس وجہ سے وہ عام بچوں سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ اگر انھیں بھی عام بچوں کی طرح کا ماحول ملے، انھیں تعلیم دی جائے، انھیں کھیل کی طرف راغب کیا جائے تو یہ بھی وہی رزلٹ دیں گے جو دوسرے بچے دیتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ جیسے شی میل ایسوسی ایشن آف پاکستان کی صدر الماس عرف بوبی گریجویٹ ہے۔ اس نے ایک ایسے گھرانے جو لندن میں رہائش پذیر تھا میں آنکھ کھولی اور اس کو ایک اچھا ماحول ملا، تعلیم ملی۔انھوں نے بتایا کہ اپریل 2011 میں تھائی لینڈ میں ہونےوالے مس یونیورس آف شی میل کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے21سالہ Mr. Sirapassorn Atayagorn ایک یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ انھوں نے بتایا ایک گریجویٹ اور حافظ قرآن خواجہ سراشاہ بانو ہے جن کے بارے میں ایک ٹی وی پر








پروگرام بھی چلا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں بعض اہم عہدوں پر یہ لوگ کام کرتے رہے ہیں۔معروف دینی سکالر عمار یاسر کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کھسرے بھی انسان ہیں اور ان کی پیدائش میں یہ نقص قدرت کی طرف سے ہوتا ہے مگر جہاں تک امامت کرانے کا تعلق ہے تو اگرچہ اس حوالے سے کوئی واضع احکامات تو نہیں لیکن کیونکہ رسول اللہ کی زندگی میں ہمیشہ ہی مردوں نے ہی نماز میں امامت کروائی اور مردوں کو ہی امامت کروانے کو کہا گیا تو اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جو مرد نہیں وہ امامت نہیں کروا سکتا۔ کھسرے بھی چونکہ مکمل مرد نہیں ہوتے اس لئے ان امامت جائز نہیں ہے۔البتہ عبادات کرنا، نماز پڑھنا، روزے رکھنا اور دیگر احکامات جو دوسرے مسلمانوں پر فرض ہیں وہ ان پر بھی فرض ہیں۔کھسرے یا ہیجڑے جنہیں ان کی حرکات و سکنات کی وجہ سے ان کے گھر والے قبول کرتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ تو پھر یہ جینے کیلئے اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ جہاں یہ آپس میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں اورایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ ان میں کوئی ریما، کوئی ریشم، کوئی مالا اور کوئی انجمن ہوتی ہے۔ ان کی اپنی اقدار اور رسم و رواج ہوتے ہیں جس کے تحت یہ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔یہ لوگ معاشرے سے کٹ کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ خواتین کی طرح کا لباس پہنتے ہیں ، مصنوعی بال اور آرائش حسن کی اشیاءکا فالتو استعمال کرتے ہیں جو انہیں عام لوگوں کیلئے قابل توجہ بناتا ہے۔ یہ لوگ عموماً ٹولیوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ ہر ٹولی کا لیڈر گرو کہلاتا ہے جبکہ جس گھر میں یہ رہتے ہیں اسے ڈیرہ کہا جاتا ہے۔یہ صبح سے شام تک شہر کی سڑکوں پر تالیاں بجا بجا کر ایک خاص انداز میں لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالواتے ہیں، شادی بیاہ میں بن بلائے مہمان بن کر آتے اور بچوں کی پیدائش پر لوری سناتے ہیں اور اس کے عوض پیسے مانگتے ہیں تا کہ اپنے پیٹ پال سکے۔ اپنی کمائی میں سے کچھ حصہ اپنے گرو کو بھی دیتے ہیںجس سے گرو کا ڈیرہ چلتا ہے اور وہ چیلوں کی فلاح و بہبود اور ان کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرتا ہے۔ کوئی بھی گرو کبھی بھی کرائے کے مکان میں نہیں رہتا بلکہ اس کا اپنا ذاتی مکان ہوتا ہے جو اسے اپنے سے پہلے والے گرو سے وراثت میں ملتا ہے۔انہوں کہا کہ املاک یا جائیداد گرو اور اس کے چیلوں کی کمائی ہوتی ہے اور گرو کے مرنے کے بعد انہی کی برداری میں سے نیا گرو اس کا انتظام سنبھالتا ہے۔مزنگ چونگی کی مدھو کہتی ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اندر احترام آدمیت نہیں رہا۔ہمارے بارے میں مشہور ہے کہ ہم معاشرے میں فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مانا کہ ہم میں کچھ برے لوگ بھی ہیں بالکل ایسے ہی جیسا کہ عام انسانوں میں کچھ اچھے اور کچھ برے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے اندر بھی یہ برائی اسی معاشرے ہی کی دی ہوئی ہے۔ ہمیں وہی انسان جو خود کو مکمل کہتے ہیںہمیں اس گندی عادات پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی مکمل انسان ہمیں اس طرف مائل کرتے ہے اور رفتہ رفتہ پھر یہ عادت بن جاتی ہے اور کچھ اسے اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں۔مدھو کا کہنا ہے کہ ہم میں لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی ہوتی ہیں جو بظاہر ایک مکمل لڑکی ہوتی ہے ماسوائے ایک خامی کے۔ انھوں نے بتایا کہ ویسے تو یہ لڑکیاں زیادہ تر ڈیروں میں ہی رہتی ہیں مگر ان میں سے کچھ برائی کی طرف بھی مائل ہو جاتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کی لڑکوں کی نسبت زیادہ مانگ ہوتی ہے۔ابھی حال ہی میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خواجہ سراوں کے طرف سے دائر ایک درخواست کی سماعت کے دوران حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امتیازی سلوک کا شکار معاشرے کے اس طبقے کو باعزت ملازمتیں دینے کے لیے حکمت عملی وضع کرے۔ جبکہ حکومت کو ہدایت کی کہ ہیجڑوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کئے جائیں، جن پر ان کی جنسی شناخت تحریر ہو۔ ساتھ ہی ہیجڑوں کو ہراساں نہ کئے جانے کی یقین دہانی کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔اگرچہ ملک بھر میں خواجہ سراں کی تنظیموں نے اس عدالتی حکم کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ خواجہ سراوں کو معاشرے کا متحرک رکن بنانے کے لیے یہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اچھا قدم ہے۔مگر ضروری یہ ہے کہ ہیجڑوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قوانین کا مثر نفاذ ہو اور انھیں دیگر تہذیب یافتہ معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی ایک باعزت مقام اور وراثت میں حق دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں ان معاشرتی رویوں میں تبدیلی درکار ہے جو ان کی تضحیک کا سبب ہیں اور ان کی رائے میں اس کے بعد ہی ہیجڑوں کو معاشرے کا مفید شہری بنایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے عاشی بٹ کا کہنا ہے کہ یہاں پر مردوں اور عورتوں کو تحفظ نہیں تو ہم بیچارے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ عدالتی فیصلے کا تو تبھی فائدہ ہے کہ حکومت اس پر عملدارآمد بھی کرے۔عدالتی فیصلے کے حوالے سے شی میل ایسوسی ایشن آف پاکستان کی صدر الماس بوبی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے، جب ہیجڑوں کی فلاح کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔الماس بوبی کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی کو شناخت اور احترام دینے کی جانب یہ ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ان کی شناخت انسان کے طور پر ہو سکے گی۔لاہور ہائی کورٹ کے وکیل نوید عباس کہتے ہیں کہ اس معاشرے سے سوال یہ ہے کہ ایسے بچوں کا مستقبل خواجہ سرا بننا ہی کیوں ہو وہ کیوں نہ اعلی تعلیم حاصل کریں اور کیوں نہ کوئی باعزت پیشہ اختیار کریں۔آخر انہیں بھی اللہ نے زہنی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے۔مگر یہ ظالم معاشرہ ان سے جینے کا حق چھین لیتا ہے اور انہیں گناہوں کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے لوگوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے صاف صاف فرمایا کہ اس کی جسمانی ساخت سے اس کی زندگی کا فیصلہ کیا جائے گا اگر کسی میں زیادہ عورتوں والی خصوصیات ہیں تو وہ عورتوں کی طرح زندگی گزارے گا اور جس میں مردانہ خصوصیات زیادہ ہیں وہ مردوں کی طرح۔ وہ انسان ہی ہیں۔خلقی اوصاف کے اعتبار سے ان میں سے بعض کامل مردانہ اوصاف سے محروم ہوتے ہیں اور بعض زنانہ اوصاف سے۔یہ ان کی تخلیق کا وہ نقص ہے جو ان کے خالق اور پروردگار نے ان میں ایسے ہی رکھا ہے جیسا کہ بعض انسانوں کو ہم خلقی اعتبار سے بعض دوسرے اعضا سے پیدایشی طور پر معذور








پاتے ہیں۔ان کے اور اِن کے مابین فرق محض ناقص اعضا کے اختلاف کاہے۔نوید عباس ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جب ہم معاشرے کے اچھے یا برے ہونے کی بات کرتے ہیں تو وہاں کے بسنے والوں کے آپس میں میل جول اور مساوات کو دیکھتے ہیں۔کہ آیا وہاں کسی کی حق تلفی تو نہیں ہورہی اور عدل و انصاف کے ترازو میں تولا جائے تو سب برابر ہوں۔ خواجہ سراں کی موجودہ حالت کے زمہ دار ہم خود ہیں، کم از کم اس مسئلے پر تو ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ ان لوگوں کے مسائل کا حل حکومت کی زمہ داری ہے۔ ان کو شرم کے مارے کچرے میں کو ن پھینکتا ہے، حقارت اور ذلت کی نظر سے کون دیکھتا ہے، رہ چلتے ان پر فقرے کون کستا ہے، انہیں اسکول کالج کوئی کیوں نہیں بھیجا جاتا ، کوئی باعزت نوکری کیوں نہیں دی جاتی، بچوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ بھی ہم ہی جیسے انسا ن ہیں، ان کا بھی دل ہے اور یہ بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خصوصی بچوں کی تعلیم کے ماہر شہزاد ہارون بھٹہ کا کہنا ہے کہ جب تک خواجہ سراووں کے ساتھ معاشرے میں ایک عام انسان جیسا سلوک نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کو اس دلدل سے نکالنا نا ممکن ہے۔ میں یہاں حکومت کی زمہ داری پر بحث نہیں کرنا چاہتا اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت بھی تو مجھ جیسے اور آپ جیسے لوگ کی ہے۔ جب تک عوام کی سوچ نہیں بدلی جائے گی اس وقت تک کچھ نہیں ہونے والا۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہم نے ان کو خلائی مخلوق کیوں سمجھ رکھا ہے ؟ آخر کیوں؟ حالانکہ یہ بھی دیگرخصوصی بچوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ ان میں یہ نقص ان کا اپنا بنایا ہوا نہین ہوتا بلکہ یہ قدرتی طور پر ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
زرا سوچیے، ہم کیوں آج تک ترقی یافتہ تو کیا ترقی پزیر قوموں کی صف میں بھی نہیں، صرف اس لیئے کہ ہماری فرسودہ اور جدت سے عاری سوچ نے ہمیں آج تک غلام بنا رکھا ہے۔ جب تک ہم ان چھوٹی چھوٹی ناانصافیوں کو ختم نہیں کر سکے۔ انھوں نے کہا کسی بھی معاشرے کی طرف سے دیگر انسانوں کو ملنے والے عام بنیادی حقوق تو درکنارہمارے معاشرے میں انھیں کبھی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا بلکہ ہمیشہ ہنسی مذاق اور تفریح کا باعث سمجھا۔ چنانچہ یہ صنف ایک انفرادی شناخت رکھنے کے باوجود کسمپرسی کا شکار رہی۔ان پر تعلیم و صحت کی سہولتوں کے دروازے اکثر بند کر دئے جاتے ہیں۔ جائیداد خریدنے یا مکان کرایے پر حاصل کرنے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کے اپنے خاندان بھی انہیں میراث کے حقدار نہیں سمجھتے۔معاشرہ انہیں خدا کی ٹھکرائی ہوئی مخلوق گردانتا ہے۔ حالانکہ یہ سب غلط ہے بلکہ یہ خصوصی بچے ہوتے ہیں اور انھیں بھی خصوصی بچوں کی طرح ٹریٹ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا پاکستان میں اس وقت خصوصی بچوں کی تعداد38لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں بچوں کی تعداد (اٹھارہ سال تک کی عمر)12لاکھ کے قریب ہے صرف پنجاب میں ایسے بچے6لاکھ سے زیادہ بچے ہیں۔ جبکہ خواجہ سراں کی کمیونٹی کے ذرائع کے مطابق یہ 10لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ جبکہ میڈیا رپورتس کے مطابق ان کی تعداد 4سے5لاکھ ہے۔







لاہورکی عاشی بٹ کا کہنا ہے کہ کھسروں کے پیشے سے اب “گے” افراد نے بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ جو زیر زمین تھے، کھسروں کے بھیس میں منظرعام پر آ گئے ۔انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بیشتر لڑکے بے روزگاری کی وجہ سے اس کام میں داخل ہو گئے ہیں جو جسم فروشی کا دھندہ کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہم پیدائشی اور روایتی ناچ گانا کرنے والے بھی بدنام ہو رہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں ہیجڑے ”خواجہ سرا “کے نام سے جانے جاتے تھی۔ بادشاہ، نواب، راجے اور مہاراجے اپنے حرموں کی نگرانی کے لئے عموماً ایسے افراد کا چنا کرتے تھے جو پیدائشی نامرد ہوتے تھے یا پھر جن کو ”مخنث“ کر دیا جاتا تھا۔ تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نواب اودھ نے اپنی فوج میں ہیجڑوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل د ے رکھا تھا جو کہ تاریخ میں ہیجڑوں کی باقاعدہ واحد فوجی بٹالین تھی اور ان کی یونیفارم بھی زنانہ لباس پر مشتمل تھی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے بہت مسائل ہیں۔ جن کو حل کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔ اس مقصد کیلئے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو ان کے لئے چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں، کارخانے لگا کر ان سے وہاں کام لیا جائے۔ جس کے بدلے میں ان کو اتنا پیسہ ملے کہ یہ اس طرح سڑکوں اور گھر گھر جا کربھیک نہ مانگیں اور عزت سے اپنے روزگار سے اپنا گزر بسر کر سکیں۔ تب ہی ان کی معاشرے میں عزت بھی بحال ہو سکتی ہے اور یہ اپنا مقام بھی بنا سکتے ہیں۔سندھ کی صوبائی وزیر سماجی بہبود نرگس این ڈی خان اور محکمہ سماجی بہبود پنجاب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ سراوں کی بہبود جس میں ان کی تعلیم وتربیت بھی شامل ہے کے خصوصی انتطامات کیے جا رہے ہیں جبکہ ان کے لئے شیلٹر ہوم بھی بنانے کے منصوبے ہیں۔نرگس این ڈی خان کا کہنا ہے کہ ہماری پہلی ترجیح ان کے روزگار کی ہے ہم چاہتے کہ ایسے منصوبے شروع کیے جائے کہ ان کو بے روزگاری کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں نادرا اور دیگر محکموں میں پڑھے لکھے خواجہ سراں کو نوکریاں فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔







پاتے ہیں۔ان کے اور اِن کے مابین فرق محض ناقص اعضا کے اختلاف کاہے۔نوید عباس ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جب ہم معاشرے کے اچھے یا برے ہونے کی بات کرتے ہیں تو وہاں کے بسنے والوں کے آپس میں میل جول اور مساوات کو دیکھتے ہیں۔کہ آیا وہاں کسی کی حق تلفی تو نہیں ہورہی اور عدل و انصاف کے ترازو میں تولا جائے تو سب برابر ہوں۔ خواجہ سراں کی موجودہ حالت کے زمہ دار ہم خود ہیں، کم از کم اس مسئلے پر تو ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ ان لوگوں کے مسائل کا حل حکومت کی زمہ داری ہے۔ ان کو شرم کے مارے کچرے میں کو ن پھینکتا ہے، حقارت اور ذلت کی نظر سے کون دیکھتا ہے، رہ چلتے ان پر فقرے کون کستا ہے، انہیں اسکول کالج کوئی کیوں نہیں بھیجا جاتا ، کوئی باعزت نوکری کیوں نہیں دی جاتی، بچوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ بھی ہم ہی جیسے انسا ن ہیں، ان کا بھی دل ہے اور یہ بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔







خصوصی بچوں کی تعلیم کے ماہر شہزاد ہارون بھٹہ کا کہنا ہے کہ جب تک خواجہ سراووں کے ساتھ معاشرے میں ایک عام انسان جیسا سلوک نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کو اس دلدل سے نکالنا نا ممکن ہے۔ میں یہاں حکومت کی زمہ داری پر بحث نہیں کرنا چاہتا اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت بھی تو مجھ جیسے اور آپ جیسے لوگ کی ہے۔ جب تک عوام کی سوچ نہیں بدلی جائے گی اس وقت تک کچھ نہیں ہونے والا۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہم نے ان کو خلائی مخلوق کیوں سمجھ رکھا ہے ؟ آخر کیوں؟ حالانکہ یہ بھی دیگرخصوصی بچوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ ان میں یہ نقص ان کا اپنا بنایا ہوا نہین ہوتا بلکہ یہ قدرتی طور پر ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں۔







زرا سوچیے، ہم کیوں آج تک ترقی یافتہ تو کیا ترقی پزیر قوموں کی صف میں بھی نہیں، صرف اس لیئے کہ ہماری فرسودہ اور جدت سے عاری سوچ نے ہمیں آج تک غلام بنا رکھا ہے۔ جب تک ہم ان چھوٹی چھوٹی ناانصافیوں کو ختم نہیں کر سکے۔ انھوں نے کہا کسی بھی معاشرے کی طرف سے دیگر انسانوں کو ملنے والے عام بنیادی حقوق تو درکنارہمارے معاشرے میں انھیں کبھی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا بلکہ ہمیشہ ہنسی مذاق اور تفریح کا باعث سمجھا۔ چنانچہ یہ صنف ایک انفرادی شناخت رکھنے کے باوجود کسمپرسی کا شکار رہی۔ان پر تعلیم و صحت کی سہولتوں کے دروازے اکثر بند کر دئے جاتے ہیں۔ جائیداد خریدنے یا مکان کرایے پر حاصل کرنے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کے اپنے خاندان بھی انہیں میراث کے حقدار نہیں سمجھتے۔معاشرہ انہیں خدا کی ٹھکرائی ہوئی مخلوق گردانتا ہے۔ حالانکہ یہ سب غلط ہے بلکہ یہ خصوصی بچے ہوتے ہیں اور انھیں بھی خصوصی بچوں کی طرح ٹریٹ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا پاکستان میں اس وقت خصوصی بچوں کی تعداد38لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں بچوں کی تعداد (اٹھارہ سال تک کی عمر)12لاکھ کے قریب ہے صرف پنجاب میں ایسے بچے6لاکھ سے زیادہ بچے ہیں۔ جبکہ خواجہ سراں کی کمیونٹی کے ذرائع کے مطابق یہ 10لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ جبکہ میڈیا رپورتس کے مطابق ان کی تعداد 4سے5لاکھ ہے۔







لاہورکی عاشی بٹ کا کہنا ہے کہ کھسروں کے پیشے سے اب “گے” افراد نے بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ جو زیر زمین تھے، کھسروں کے بھیس میں منظرعام پر آ گئے ۔انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بیشتر لڑکے بے روزگاری کی وجہ سے اس کام میں داخل ہو گئے ہیں جو جسم فروشی کا دھندہ کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہم پیدائشی اور روایتی ناچ گانا کرنے والے بھی بدنام ہو رہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں ہیجڑے ”خواجہ سرا “کے نام سے جانے جاتے تھی۔ بادشاہ، نواب، راجے اور مہاراجے اپنے حرموں کی نگرانی کے لئے عموماً ایسے افراد کا چنا کرتے تھے جو پیدائشی نامرد ہوتے تھے یا پھر جن کو ”مخنث“ کر دیا جاتا تھا۔ تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نواب اودھ نے اپنی فوج میں ہیجڑوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل د ے رکھا تھا جو کہ تاریخ میں ہیجڑوں کی باقاعدہ واحد فوجی بٹالین تھی اور ان کی یونیفارم بھی زنانہ لباس پر مشتمل تھی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے بہت مسائل ہیں۔ جن کو حل کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔ اس مقصد کیلئے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو ان کے لئے چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں، کارخانے لگا کر ان سے وہاں کام لیا جائے۔ جس کے بدلے میں ان کو اتنا پیسہ ملے کہ یہ اس طرح سڑکوں اور گھر گھر جا کربھیک نہ مانگیں اور عزت سے اپنے روزگار سے اپنا گزر بسر کر سکیں۔ تب ہی ان کی معاشرے میں عزت بھی بحال ہو سکتی ہے اور یہ اپنا مقام بھی بنا سکتے ہیں۔سندھ کی صوبائی وزیر سماجی بہبود نرگس این ڈی خان اور محکمہ سماجی بہبود پنجاب کے ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ سراوں کی بہبود جس میں ان کی تعلیم وتربیت بھی شامل ہے کے خصوصی انتطامات کیے جا رہے ہیں جبکہ ان کے لئے شیلٹر ہوم بھی بنانے کے منصوبے ہیں۔نرگس این ڈی خان کا کہنا ہے کہ ہماری پہلی ترجیح ان کے روزگار کی ہے ہم چاہتے کہ ایسے منصوبے شروع کیے جائے کہ ان کو بے روزگاری کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں نادرا اور دیگر محکموں میں پڑھے لکھے خواجہ سراں کو نوکریاں فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔











Click On Image To Subscribe On Youtube:


AA NEWS NETWORK

No comments