سوشل میڈیا آپ کے دماغ
کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟
سوشل میڈیا کے آنے سے
پہلے عالمی آبادی کبھی بھی ایک دوسرے سے اس حد تک رابطے میں نہیں تھی۔
لیکن سوشل میڈیا پر اس
درجہ انحصار نے ہمارے دماغی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔ ایک عام برطانوی
شہری دن میں اوسطاً 28 بار اپنا فون چیک کرتا ہے۔
ایک طرف جہاں سوشل میڈیا
کے فوائد ہیں وہیں دوسری جانب اس کا حد سے زیادہ استعمال ہمیں افسردہ اور تنہائی
کا شکار بنا رہا ہے۔
بہترین فلٹروں کے ساتھ
انسٹاگرام پر خوبصورت تصاویر پوسٹ کرنے کی ضرورت کئی لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کر
رہی ہے۔ سونے سے پہلے عادتاً ٹوئٹر کو دیکھنا اچھی نیند کے رستے میں رکاوٹ بن سکتا
ہے۔
یہاں سوشل میڈیا استعمال
کرنے کے باعث چھ ایسی وجوہات بیان کی گئی ہیں جو آپ کی ذہنی صحت پر اثر ڈال رہی ہیں
اور شاید آپ کو اس بات کا علم تک نہیں ہے:
عزت نفس
ہم سب کی کوئی نہ کوئی
کمزوری ہوتی۔ ہم کچھ باتیں کھل کر کرتے ہیں اور کچھ باتیں مخفی رکھتے ہیں۔
لیکن کسی کے سوشل میڈیا
کا جائزہ لینا اور ان کی خوبصورتی سے بھرپور تصاویر اور فیس بک پر ان کی ازدواجی حیثیت
پر نظر رکھنا ہمیں اپنے ہی بارے میں شکوک پیدا کر سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی
تحقیق کے مطابق کئی افراد ’فیس بک حسد‘ میں مبتلا ہیں اور وہ لوگ جو فیس بک
استعمال نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے زیادہ خوش ہیں۔
ہیلتھسٹا کے ڈاکٹر ٹم
بونو جو ’وین دا لائیکس آر ناٹ انف‘ کے مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں: ’جب ہم اس بات کا
موازنہ کرتے ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں ہم کہاں پر کھڑے ہیں۔ ہم اپنی خوشی کے
بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘
اس بارے میں خبردار رہنا
کہ دوسروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ٹائم گزارنے سے گریز کرنے اور خود پر توجہ دینے
سے آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انسانی رابطہ
بطور انسان دوسرے انسانوں
سے رابطہ رکھنا اور رابطہ قائم کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے لیکن ایسا مشکل ہو
سکتا ہے جب ہم ایک مستطیل سکرین سے چپکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم اپنے اصل
زندگی کے دوستوں کی نسبت ڈیجیٹل دوستوں کے ساتھ زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں۔
سٹینا سینڈر سابقہ ماڈل ہیں اور ان کے انسٹاگرام پر ایک لاکھ
سات ہزار فالورز ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا بعض اوقات ان کو اکیلا محسوس کرنے کی
وجہ بنتا ہے۔
سٹینا نے دی انڈپینڈنٹ کو
بتایا کہ ’میں اپنے تجربے سے جانتی ہوں کہ جب میں اپنے دوستوں کو پارٹی کرتے دیکھتی
ہوں اور جب میں اس میں شریک نہیں ہو پاتی تو میں بہت اکیلا محسوس کرتی ہوں۔ جس سے
مجھے بہت تنہائی اور بے چینی محسوس ہوتی ہے۔‘
امریکن جنرل آف ایپی ڈیمیالوجی
کی ایک تحقیق میں پانچ ہزاردو سو آٹھ ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو فیس بک متواتر
استعمال کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ فیس بک کا مسلسل استعمال انسان کی
زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
یادداشت
ماضی میں گزرے واقعات اور
یادداشتوں کو یاد رکھنے کے لیے سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن یہ
آپ کی زندگی کے کچھ واقعات کے بعض حصوں کو مسخ بھی کر سکتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر
لوگ ایک خوبصورت مقام پر ایک اچھی سیلفی لینے میں بہت وقت لگا دیتے ہیں جبکہ ہم اس
جگہ کی خوبصورتی سے حقیقی طور پر محروم ہو رہے ہوتے ہیں اور اس کو اپنی آنکھوں سے
نہیں دیکھ پاتے۔
ڈاکٹر بونو کا کہنا ہے کہ
’اگر ہم اپنی تمام تر توجہ اپنے سوشل میڈیا فالورز سے تعریف حاصل کرنے کے لیے اچھی
تصویر بنانے پر مرکوز رکھیں گے تو ہم اس وقت میں اس جگہ کی حقیقی خوبصورتی سے لطف
نہیں اٹھا سکیں گے۔ اپنے فون پر زیادہ وقت گزارنا ہماری توجہ تقسیم کرنے کا باعث
بنے گا اور ان لمحات سے ملنے والی خوشی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کرنے دے گا۔‘
نیند
نیند کا پورا ہونا انسان
کے لیے بہت اہم ہے لیکن ہم میں سے بہت سے افراد بستر پر جا کر بھی فون استعمال
کرتے رہتے ہیں جس سے نیند اچاٹ ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر بونو کے مطابق
’سوشل میڈیا پر دیکھی گئی چیزوں کی وجہ سے بے چینی یا حسد محسوس کرنا ہمارے دماغ
کو جاگنے پر مجبور رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نیند نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے
چہرے سے چند انچ کی دوری پر روشن موبائل کی سکرین سے ایسی شعاعین خارچ ہوتی ہیں جو
ہمیں تھکاوٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔‘
خود پر تھوڑی سختی کریں
اور بستر پر جانے سے ایک گھنٹے سے 40 منٹ پہلے تک
فون کا استعمال نہ کریں اور دیکھیں
کہ آپ کی نیند کس حد تک بہتر ہوتی ہے۔
توجہ کا دورانیہ
یہ صرف لاشعور نہیں ہے جس
کی وجہ سے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے لیکن یہ توجہ مرکوز کرنے کا دورانیہ ہے
جس دوران آپ جاگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے معلومات تک آسان رسائی بلاشبہ ایک
شاندار چیز ہے لیکن یہ لوگوں کی توجہ بانٹنے کی بہت بڑی وجہ بھی بن رہی ہے۔
ڈاکٹر بونو کہتے ہیں:
’سوشل میڈیا نے آسان تفریح تک رسائی کو فوری اور آسانی بنا دیا ہے جس سے انسان خود
بخود اس جانب مائل ہوتا ہے۔‘
اگر آپ کچھ دیر کے لیے
اپنا فون چیک نہ کریں تو یہ آپ کی قوت ارادی آزمانے کا بہترین موقع ہو سکتا ہے۔
دماغی صحت
سوشل میڈیا اداسی پھیلانے
کا باعث بن رہا ہے لیکن یہ انسان کے ساتھ بے چینی اور ذہنی دباؤ جیسے مسائل کی وجہ
بھی بن سکتا ہے جب آپ بغیر خیال رکھے اس کا بہت زیادہ استعمال جاری رکھتے ہیں۔
مارچ 2018 میں ایک رپورٹ
سامنے آئی کہ جنریشن زیڈ کا 30 فیصد سے بھی زیادہ حصہ سوشل میڈیا ترک کر رہا ہے
جبکہ کہ 41 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے بے چینی، اداسی اور دباؤ کی وجہ بن
رہا تھا۔ اس سروے میں ایک ہزار افراد شریک تھے۔
بین جیکبز جو کہ ایک ڈی
جے ہیں ان کے ٹوئٹر پر پانچ ہزار سے زیادہ فالورز ہیں۔ انہوں نے اس پلیٹ فارم سے
جنوری 2016 سے چھٹی لینے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت
ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ٹوئٹر
نے مجھے بے چین کرنا شروع کر دیا تھا اور رفتہ رفتہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میں نے
اپنے آپ کو بہت سے اجنبی لوگوں کے احساسات کے تابع کر رکھا تھا جو کہ جانتے بھی نہیں
تھے کہ میں کون ہوں۔ جب سے میں نے ٹوئٹر سے وقفہ لیا ہے میرے پاس بہت سی چیزوں کے
لیے کافی وقت میسر آ گیا ہے جیسے کہ صبح تین بجے اٹھ کے کتاب پڑھنے کا۔‘
آپ کو بہتری کے لیے شاید
سوشل میڈیا چھوڑنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن اگر آپ محسوس کریں کہ یہ آپ کو متاثر کر
رہا ہے تو کیوں نہ سوشل میڈیا کے لیے کچھ وقت مختص کر دیا جائے جو کہ روزانہ کی بنیاد
پر آپ کے معمول کا حصہ ہو۔ یہ چھوٹی سی تبدیلی کافی بہتری کی وجہ بن سکتی ہے۔
|
No comments